Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

رجاء نے برق رفتاری سے یہ حرکت کی تھی۔ وردہ کے وہم و گمان میں بھی یہ خیال نہیں تھا کہ وہ عین موقع پر اس طرح اس کی گرفت میں آکر نکل جائے گی۔ حیرت کے باوجود حواس باختہ نہیں ہوئی تھی۔ رجاء کے آگے بھاگتے ہی وہ بھی بھاگ کر اسے دبوچنے کے لیے بڑھی تھی کہ ”کون ہے؟“کی کرخت آواز سن کر اس کے قدم دروازے کے پاس ہی رک گئے تھے۔ کوئی مرد تیز تیز قدموں سے اندر سے آرہا تھا۔
سنگ مرمر کے خوب صورت فرش پر رجاء بے حس و حرکت پڑی تھی شاید وہ گر کر بے ہوش ہوئی تھی۔ اسے یہاں مزید رکنا خطرناک لگا اور وہ رجاء کے بے ہوش وجود پر غصے بھری نگاہ ڈال کر وہاں سے چلی گئی۔

”کیا ہوا تم تنہا کیوں آئی ہو؟“ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے نوجوان نے اسے دیکھ کر کرخت لہجے میں پوچھا تھا۔ 

”سوال و جواب بعد میں کرنا، پہلے نکلو یہاں سے …… ہم خطرے میں ہیں۔
(جاری ہے)

“ اس نے اگلا دروازہ بند کرتے ہوئے عجلت بھرے انداز میں کہا۔ اس لڑکے نے قہر بھری نگاہ وردہ پر ڈالتے ہوئے تیز ڈرائیونگ کی تھی۔

”اب بکو بھی، کیا ہوا ہے؟ شکار ہاتھ سے نکل گیا کیا؟ علاقہ سے نکل جانے کے بعد دوسرے علاقے میں داخل ہوتے ہوئے وہ غرایا۔

”تم …… تم جانتے ہونا میں نے اس پر کتنی محنت کی، کتنے کٹھن حالات کے بعد وہ میرے ہاتھ جس طرح آئی وہ میں ہی جانتی ہوں اور ……“

”ہاتھ آکر مچھلی کی طرح تمہارے ہاتھوں سے پھسل گئی ……! “ اس لڑکے کے چہرے پر خشونت و کرختگی برس رہی تھی۔
وہ پُرطیش انداز میں وردہ کو گھورتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ وردہ کی تمام تیزی وطراری پانی کے بلبلے کی مانند غائب ہوچکی تھی۔ اس کا خوب صورت چہرہ زرد پڑچکا تھا“ آنکھوں میں خوف پھیل گیا تھا۔ وہ اضطراری انداز میں اپنے ہاتھون کو مروڑ رہی تھی۔

”جان توڑ جدوجہد کے بعد میں نے اس کو شیشے میں اُتارا تھا۔“

”مجھے ”تھا“ اور ”گا“ سے شدید چڑ ہے۔
میں عملی انسان ہوں اور حال کو پسند کرتا ہوں، ماضی اور مستقبل سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے۔ کل جو گزر گیا، کل جو آئے گا مجھے کبھی متاثر نہیں کرتے ہیں ایسی باتیں کہ زندگی تو ”حال“ میں ہے ”آج“ میں ہے۔ “ اس کو وردہ کی کوئی معذرت کوئی شرمندگی قابل قبول نہ تھی۔ وہ اسی طرح جارحانہ انداز میں اس کی بات قطع کرکے کہے جارہا تھا۔

”فواد پلیز! اتنے کٹھورمت بنو۔
تم نہیں جانتے وہ لڑکی کٹر مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسے لوگوں کے تو محسوس ہوتا ہے رگوں میں خون کے ساتھ ساتھ مذہب و شریعت بہتی ہے۔ ایسے لوگوں کو راہ پر لانا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ “ وہ روہانسے لہجے میں صفائیاں پیش کررہی تھی۔

”میں نے تمہیں تجویز نہیں دی تھی کہ ایسی لڑکی منتخب کرو۔“

”تمہارا ہی حکم تھا کہ لڑکی بے حد حسین ہو۔

”فواد پلیز! مجھے معاف کردو، میں اس سے بھی زیادہ پیاری لڑکی تمہاے لیے لاوٴں گی۔“

”تین ماہ تم نے اس لڑکی کے پیچھے ضائع کردیئے اور لڑکی بھی وہ جو میرے دل کو بری طرح بھاگئی تھی۔ جس کے لیے میں نے لمحہ لمحہ انتظار کیا اور اب جب انتظار ختم ہوا تو تم کہتی ہو وہ لڑکی تمہاری گرفت سے نکل گئی؟“ وہ بات کرنے کی خاطر کار آہستہ چلارہا تھا۔
سڑک پر ٹریفک برائے نام تھا یہ سڑک رہائشی علاقے سے باہر تھی۔ وردہ ڈری سہمی نگاہوں سے بار بار اس کی جانب دیکھ رہی تھی، فواد جس کو اس نے رجاء سے سلمان عرف سنی کے نام سے متعارف کرایا تھا۔ اس کی حالت اس وقت ایسی ہی تھی جیسے کسی بھوکے بھیڑئیے کے آگے سے شکار غائب کردیاجائے اور وہ غیظ و غصے سے اپنے حواس کھونے لگے۔ 

”فواد! مجھے معلوم ہے تمہارے جذبات کا ……“

”خاموش رہو، معلوم ہونے سے ازالہ نہیں ہوجاتا ہے۔
تمہیں معلوم ہے مجھے ڈیلیوری دینی ہے، پارٹی یہاں آئی بیتھی ہے۔ دو دن بعد شفٹنگ کرنی ہے ابھی یہ مسئلہ ختم نہیں ہوا کہ تم نے اپنی بے وقوفی سے بڑی مشکل پیدا کردی ہے۔ شکار بھی ہاتھ سے نکال دیا اور خطرات بھی بڑھادیئے ہیں اس لڑکی نے حقیقت بتادی تو ہم بری طرح پھنس جائیں گے۔ سمجھ رہی ہو تم ؟ “ وہ کسی صورت اُسے معاف کرنے والا نہیں لگ رہا تھا اور آنے والے لمحوں کا تصور کرکے وردہ کی حالت غیر ہونے لگی تھی۔

###

فیاض صاحب نے دو ملازماوٴں کا مزید اضافہ کردیا تھا۔ اسی خیال سے کہ وہ جانتے تھے عیش و عشرت میں زندگی گزارنے والے ان کی بھابھی و بھتیجے کو کوئی پریشانی نہیں ہو۔ ویسے تو گھر میں پہلے بھی تین ملازمائیں تھیں۔ ایک صفائی کرنے پر مامور تھی۔ دوسری کپڑے دھوتی تھی تو تیسری کچن میں مدد کرواتی تھی۔ صباحت کو کام سے ذرابھی دلچسپی نہ تھی، یہی بیٹیوں کی عادت تھی ، معمولی سا کام بھی ان کے لیے بڑا مسئلہ بن جاتا تھا اگر اماں جان کی سخت گیر شخصیت کا رعب نہ ہوتا تو صباحت بھی کبھی کچن میں نہ جھانکتی کہ اماں جان کے خوف سے وہ خواہ دکھاوے کے لیے ہی تھوڑی بہت کام میں دلچسپی لے لیا کرتی تھیں۔
وگرنہ یہ تمام ذمہ داریاں ازخود ہی پری کے ذمہ آچکی تھیں اور صباحت آزاد ہی رہتی تھیں۔

پری آج نانی کے ہاں چلی گئی تھی۔

اس کے جانے کے بعد تمام ذمے داری صباحت پر آجاتی تھی اور اس وجہ سے وہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ گھر سے جائے ، لیکن اس معاملے میں وہ بے بس تھیں۔ پری کو روکنے کا اختیار وہ نہیں رکھتی تھیں ، البتہ اس دوران ان کی پوری کوشش ہوتی کہ وہ فیاض صاحب کے کان بھریں اور وہ اشتعال میں آکر اس پرنانی کے ہاں جانے کی پابندی لگادیں اور وہ مسرور ہوجائیں۔

”چائے لانے میں اتنی دیر ……؟ “ فیاض صاحب نے ان کے ہاتھ سے کپ لیتے ہوئے کہا۔

”پہلے اماں کو دے کر آئی ہوں، آپ کو تو معلوم ہی ہے ان کو ہر دس منٹ بعد چائے کی طلب محسوس ہوتی ہے۔ “ صباحت ان کے قریب ہی صوفے پر بیٹھتے ہوئے گویا ہوئی تھیں۔

”ہم نے بچپن سے اماں کو چائے اور پان کا شوقین دیکھا ہے۔ “ وہ چائے پیتے ہوئے اطمینان سے گویا ہوئے۔

”ہوں …… ! مگر دونوں ہی اچھی عادتیں نہیں ہیں۔“

”تم کہہ سکتی ہو مگر مجھے ان کے شوق پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اماں کے شوق کی تسکین کے لیے میں آخری سانس تک کوشاں رہوں گا۔ “ وہ گھونٹ گھونٹ چائے پیتے ہوئے جتانے والے انداز میں کہہ رہے تھے۔

”ہاں ……ہاں …… تو میں نے کب اعتراض کیا ہے۔ اماں کے پان چائے سے مجھے بھلا کیا تکلیف ہوسکتی ہے “ ان کا یہ انداز صباحت کو گھائل کردیتا تھا۔

”تکلیف ہونی بھی نہیں چاہیے صباحت بیگم، میں سب کچھ برداشت کرسکتا ہوں ماسوائے اماں جان کی شان میں کسی گستاخی کے……“

”توبہ ہے ! آپ سے کبھی بات کرنا خود کو کسی کڑے امتحان میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ “

”کڑا امتحان!“ انہوں نے کپ میز پر رکھتے ہوئے انہیں گھور کر کہا۔ ”صباحت بیگم! کبھی بھی مجھے تمہاری یا بچیوں کی اماں جان سے معمولی سی تھی بدتمیزی یا گستاخی کی خبر ملی تو دیکھنا، کڑا امتحان کیسا ہوتا ہے۔

”میں اور میری بیٹیاں اماں جان سے خواب میں بھی کسی گستاخی کی مرتکب نہیں ہوسکتی ہیں، البتہ آپ کی وہ محبت کی نشانی پری تو ہر وقت ان سے بدتمیزیاں اور گستاخیاں کرتی رہتی ہے۔ اس کے بارے میں …“

”پری کا ذکر مت کیا کرو۔“ ان کے طنز نے ان کے اندر اضطراب جگادیا تھا۔

”کیوں …! کوئی یاد آجاتا ہے؟“ وہ طنزاً مسکرائیں۔

”یاد وہ آتے ہیں جو بھولے جاچکے ہوں۔
“ وہ مرد تھے ان کو صباحت کی طرح ہیرپھیر سے بات کرنا نہیں آتا تھا۔ سو بہت اطمینان سے وہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوئے۔

”اس کا مطلب ہے آپ اس عورت کو ابھی تک بھولے نہیں ہیں۔“ وہ کسی اسپرنگ کی مانند اچھل کر کھڑی ہوتی تھیں۔

”نہیں!‘ ‘وہ بہت اطمینان سے ان کی بدلتی کیفیت دیکھ رہے تھے۔

”کس طرح بھول سکتا ہوں، رات ودن تم اس کو یاد کرتی ہو، مجھ سے بھی زیادہ وہ ہر وقت تمہارے حواسوں پر سوار رہتی ہے۔
تمہاری باتوں میں اس کا ذکر ہوتا ہے، تمہارے طنز کے روابط، افکار کی ڈوروہیں سے جڑی ہوتی ہیں۔“

”مجھ کو الزام مت دیں، میں ایسی پاگل عورت نہیں ہوں، جو سوکن پر فریفة رہوں گی۔ دراصل بات یہ ہے کہ اس عورت سے آپ کا تعلق ٹوٹ کر بھی نہ ٹوٹ سکا ہے۔ پری کا وہاں جانا چھڑوائیں، جب تک وہ ان سے ملتی رہے گی تب تک یہ سلسلہ بھی چلتا رہے گا، اب پری بھی وہاں نہیں جائے گی۔
“ انہوں نے اٹل انداز میں اپنے دل کے ارمان کو زبان دی تھی۔“

”وہ پری کی ماں ہے، میں کیسے اس پر ان سے ملنے پر پابندی لگاسکتا ہوں۔“

”اس عورت سے آپ کا تعلق ٹوٹ چکا ہے اس حوالے سے…“

”تعلق میرا ٹوٹا ہے، پری کا نہیں، وہ اس کی بیٹی ہے۔“

”وہ پری کو بھڑکاتی ہے، آگ لگاتی ہے ہمارے گھر میں … پری اس سے ملتی رہے گی تو آپ اور مجھ میں دوریاں اسی طرح بڑھتی رہیں گی۔

”دوریاں بڑھانے میں تمہارے دماغ میں گھسا وہ شک کا فتور ہے جس نے تمہیں شدید احساس کمتری و وحشت میں مبتلا کردیا ہے۔“ وہ کہہ کر وہاں سے چلے گئے۔

###

طغرل نے نیٹ پر دوستوں کے ساتھ کچھ وقت گزارا مگر وہاں بھی اس کی طبیعت بہل نہ سکی۔ گھنٹوں چیٹ کرنے والے طغرل کا دل یہاں بھی نہ بہل سکا تھا۔ مری میں ممی سے بات کی، سڈنی میں پاپا، بھائی و بھابی کے علاوہ آپی اور دلہا بھائی سے بات ہوئی لیکن دل کی تشنگی کسی گوشے میں موجود رہی تھی۔
وہ خاصی دیر تک بیڈ پر کروٹیں بدلتا رہا پھر اٹھ کر پردہ کھسکا کر کھڑکی سے آسمان کو دیکھنے لگا۔

رات ابھی گہری نہیں ہوئی تھی۔ مگر آسمان پر سیاہ بادلوں کا راج تھا۔ جس کے باعث چاند ستارے چھپ گئے تھے اور گھور اندھیرا ہر سمت پھیلا ہوا تھا ، ہوا نہ ہونے کے باعث ماحول میں حبس تھا، لان میں موجود درختوں کے پھول و شاخیں ساکت تھیں۔ معمولی سی بھی جنبش کسی میں نہ تھی۔

وہ سامنے ناریل کے درخت کی چھدری شاخوں پر نگاہیں جمائے سوچ رہا تھا۔ سڈنی سے روانہ ہوتے وقت بلکہ یہاں آنے کی تیاری دیکھ کر پاپا نے کہنا شروع کردیا تھا کہ وہ یہاں سے اپنا دماغ درست کرکے جائے، پاکستان جاکر پری سے کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ و لڑائی جھگڑا نہ کرے۔ اگر ان کو کوئی رپورٹ مل گئی تو وہ بناکسی لحاظ و مروت کے سب کے سامنے اس کی کلاس لیں گے اور یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کے پاپا پری سے ازحد محبت کرتے ہیں۔
پری کی خاطر وہ کسی بھی اقدام سے گریز نہ کریں گے۔ ویسے وہ بھی اس کے لیے دل میں کوئی ایسا سخت قسم کا بغض و عنا نہ رکھتا تھا کہ جس کے سبب اس سے مصالحت نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ سوچ کرآیا تھا شروع شروع میں اس کو ستائے گا، جلائے گا، تنگ کرے گا اور جب وہ زچ ہو جائے گی تو دوستی کرے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ اس کی وہ کسی بات کو بھولی نہ تھی۔
وہ آج بھی اس سے اتنی ہی دُوری پر تھی اور متنفر تھی ، جتنی آج سے دس سال قبل تھی اور آج کے اس کے سردو بیگانہ رویے نے ثابت کردیا تھا کہ وہ اس سے فاصلے پر رہنے والی ہے۔ ایسے فاصلے جو کم ہونے کے بجائے بڑھیں گے۔ دروازہ پر دستک دے کر عادلہ اندر آئی تھی ، ہاتھ میں دودھ کا گلاس لیے۔

”تم نے کیوں یہ تکلف کیا؟“ وہ کھڑکی سے ہٹ کر گویا ہوا۔

”مجھے معلوم ہے آپ نے ڈنر بھی ڈھنگ سے نہیں کیا ہے۔ گھر آکر بھی آپ نے کھانے سے منع کردیا ہے۔ اب دودھ تو آپ کو لینا ہی ہوگا۔“ عادلہ نے ٹرے میں رکھا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔

”فکر مت کرو۔ ایسا کبھی کبھی ہوجاتا ہے کچھ کھانے کا موڈ نہیں ہوتا ہے۔“

”جب کوئی بلاوجہ اس طرح بدتمیزی سے پیش آئے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ نے تو بے حد خلوص سے پری کو تفریح کی دعوت دی تھی اور اس نے آپ کی بے عزتی کردی۔
وہ ایسی ہی ہے، چڑچڑی و بددماغ۔“ عادلہ بڑے پرخلوص انداز میں اس سے ہمدردی جتارہی تھی۔

”پہلی بار آوٴٹنگ پر گئے اور آپ کا موڈ آف ہوگیا۔ سارا مزا کرکرا ہوگیا۔“ پری سے جھڑپ نے اس کا موڈ خراب کردیا تھا جو باہرجاکر بھی بدل نہ سکا تھا۔ عادلہ جو عائزہ کی زبانی سب سن چکی تھی، اس کو طغرل کا پری کو مدعو کرنا بالکل پسند نہیں آیا تھا۔ مستز اداس پر پری کے انکار کے بعد طغرل نے خاموشی اختیار کی تو وہ تمام راستے اور ہوٹل میں ڈنر کے دوران بھی برائے نام بات کرسکا تھا۔
عادلہ نے سوچ لیا تھا وہ اس کو جتائے گی ضروری پری کے بدصورت رویے کے بارے میں۔

”سوری ڈئیر! یہ میری بری عادت ہے کہ میں اپنے غصے پر قابو فوری نہیں پاسکتا ہوں۔ ہزار بار کوشش کے باوجود بھی۔“

”آپ جلدازجلد اپنے غصے پر قابو پالیں تو بہتر ہے۔ کیونکہ وہ اسی طرح آپ کے ساتھ بدتمیزی کرتی رہے گی۔ یہ اس کی عادت ہے دوسرے کو پریشان کرکے خود خوش ہوتی ہے۔
ابھی بھی دیکھ لیں ہماری تفریح ڈنر کو خراب کرکے خود اپنی نانو کے ہاں چلی گئی۔ دادی جان کے منع کرنے کے باوجود …“ حسب عادت اپنی بات میں وزن کے لیے جھوٹ بھی ملایا تھا۔

”دادو کے منع کرنے کے باوجود؟“ اس کی خوب صورت آنکھوں میں استعجاب در آیا جب کہ عادلہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اثبات میں گردن بلائی تھی۔

”مگر دادو اس کو منع کیوں کریں گی بہرحال یہ اس کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے نانو کے ہاں جاسکتی ہے، یہاں دادی جان کو اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔
“ اس نے سادگی سے کھری بات کی تھی۔

”دادی خوامخواہ اعتراض نہیں کرتی ہیں، ان کے انکار کی بھی وجہ ہے۔“ وہ طغرل کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی جو کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔

”کیا وجہ ہوسکتی ہے بھلا!“

”پپا کی پہلی بیوی اور ساس مل کر پری کو ہم سب کے خلاف بھڑکاتی ہیں۔ خاص طور پر پپا ، مما اور دادی کے خلاف اتنا زہر بھرتی ہیں کہ وہ ہم سے سیدھے منہ بات کرنا پسند نہیں کرتی ہے۔
سب کو دشمن سمجھتی ہے۔“

”اوہ…! یہ بات ہے۔ وہ اتنی بے وقوف ہے کہ جس گھر میں رہتی ہے وہاں کی پروا نہیں کرتی ہے۔ سب کتنا پیار کرتے ہیں اس سے۔“

”کچھ لوگ ہوتے ہیں ایسے … سب کی محبتیں سمیٹ کر بھی کم ظرف و تنگ دل رہتے ہیں ایسے لوگوں میں پری بھی ہے۔“

”میں اس کو ایسا نہیں سمجھتا تھا۔“ وہ گہری سانس لے کر گویا ہوا۔

”وہ چہرے سے جتنی معصوم و بھولی دکھائی دیتی ہے، حقیقت میں اس سے مستزاد ہے۔
خیر چھوڑیں اس کو … یہ بتائیں، اب ہم کہاں چلیں گے؟“ ان کی آنکھوں میں اترتی سوچ کر پرچھائیوں میں پری کا عکس نمایاں ہونے لگا تھا ، جو اس کو کہاں برداشت ہوسکتا تھا۔ سو سرعت سے بات بدل کر گویا ہوئی تھی۔

”بہت جلد اب کے ہم ساحل سمندر پر چلیں گے سب کو لے کر۔“

”ٹھیک ہے !“ طغرل کے موڈ سے لگ رہا تھا وہ تنہائی چاہ رہا ہے اور اس سے بعیدبھی نہ تھا کہ وہ اس کو جانے کو بھی کہہ دیتا۔ سو وہ خود ہی شب بخیر کہہ کر چلی گئی۔

”پری بیگم! زیادہ اونچی اڑان بھرنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ ”پر“ ٹوٹ جائیں گے۔“ اس نے بڑبڑاتے ہوئے دودھ کا گھونٹ بھرا اور دوسرے ہی لمحے واش بیسن کی طرف بھاگا تھا کیونکہ عادلہ دودھ میں چینی کی جگہ نمک ملا کر لے آئی تھی۔

   2
0 Comments